مفتی محمد ارشد فاروقی
اسلام میں سال کے 12 مہینوں میں رمضان کو فضیلت اور اعلیٰ مرتبہ حاصل ہے، پوری دنیا کے مسلمان اس مہینے کی دل کی گہرائیوں سے قدر و منزلت کرتے ہیں اور قرآن کریم نے خود رمضان کا تعارف کرایا ہے رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم اتارا گیا (سورہ بقرہ ) اور اسی میں قرآن ہے کہ اس مہینے میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار رات سے بہتر ہے اور یہ رات شب قدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے۔
مفسرین کہتے ہیں کہ لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر قرآن کریم یکبارگی رمضان کے مہینے میں شب قدر میں اتارا گیا اور پھر حسب منشا ئے الٰہی جبرائیل امین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ لاتے رہے اور یہ مبارک سلسلہ 23 سالہ کی مدت میں مکمل ہوا اس اعتبار سے رمضان کو جو شرف عطا ہوا وہ قران کریم کی بدولت ملا اور قرآن کریم جیسی مقدس و مبارک کتاب نے قیامت تک کے لیے رمضان کو بابرکت بنا دیا اس لحاظ سے رمضان درحقیقت قرآن کا مہینہ ہے، قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے، اللہ کا چمکتا نور ہے، اس میں حکمت ہے، نصیحت و مواعظت ہے، صراط مستقیم ہے، پکڑ کر چلنے کے لیے مضبوط چیز ہے، قوی ترین پناہ گاہ ہے، قرآن میں اگلے پچھلے لوگوں کی خبریں بھی ہیں، رہتی دنیا تک کے لیے انسانیت کی فلاح و بہبود کے احکام ہیں ،اس میں حقائق و فیصلہ کن ہدایات ہیں، ہزل گوئی کا دور دور تک گزر نہیں ہے، بار بار پڑھنے سے پرانا ہوتا ہے نہ پڑھنے والے کو اکتاہٹ ہوتی ہے، بلکہ قاری قرآن ہر بار نئی حلاوت سے آشنا ہوتا ہے رمضان و قرآن کا رشتہ اٹوٹ ہے قرآن کے تقاضے رمضان میں بڑھ جاتے ہیں قرآن کے لیے رمضان ریفریشر کورس ہے رمضان میں قرآن کریم کی تعلیمات ہدایات اور احکام کا اعادہ کیا جائے، 11 مہینوں کی زندگی کو قرآنی انوار سے روشن کرنے کی تدابیر اختیار کی جائے، ہمارے اسلاف رمضان کو قرآن کے مہینے کے طور پر مناتے اور پورا مہینہ قران کے لیے خصوصی طور پر وقف کر دیتے قرآن پڑھتے، غور کرتے ، تلاوت کرتے ،نمازمیں پڑھتے، نماز کے علاوہ پڑھتے کیونکہ رمضان ماہ قرآن ہے حضرت ابراہیم نخعی اور حضرت قتادہ تین روز میں ایک قرآن مکمل کرتے اور آخری عشرے میں ہر رات میں ایک قرآن ختم کرتے حضرت امام زہری کا یہ حال تھا کہ رمضان شروع ہوتے ہی بات چیت کم کر دیتے سارا وقت تلاوت میں لگاتے یہی حال حضرت سفیان ثوری کاتھا۔
حضرتِ عثمان بن عفانؓ فرماتے ہیں اگر تمہارے دل پاکیزہ ہوں تورب کے کلام سے کبھی اسودگی نصیب نہ ہو مزید کا شوق باقی رہے رمضان المبارک میں قران کریم کا جو مسلمان عالمی مظاہرہ کرتے ہیں اور عالم اسلام کی تمام مساجد قران کریم کی آواز سے گونج اٹھتی ہیں ۔ نماز کے بعد تراویح کا مبارک سلسلہ شروع ہوتا ہے، حفاظ کرام تراویح میں قران سناتے ہیں۔ قران کا تقاضا ہے کہ قران کی تلاوت ورتل القرآن ترتیلا کے مطابق کی جائے حروف کی ادائیگی درست ہو ایک ایک لفظ صاف ہو عین کی جگہ حمزہ قاف کی جگہ کاف نہ پڑھا جائے، تلاوت کے وقت حروف نہ کٹیں اور جس طرح قران نازل ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اسی طرح قرآن پڑھا جائے، اور یہ طریقہ صحابہ کرام تابعین و اسلاف سے نقل ہوتا ہوا آج تک محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا، لیکن قرآن کریم کے حکم اور تقاضے کے باوجود ہندوستان کی بیشتر مساجد میں تراویح میں قرآن جس انداز میں پڑھا جاتا ہے کسی مسجد میں یعلمون تعلمون کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا حافظ اس قدر روانی سے پڑھتے ہیں کہ وقف لازم ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ حروف تک صاف ہو جاتے ہیں جبکہ حروف کی غلط ادائیگی سے معنی میں زبردست تبدیلی ہو جاتی ہے یعلمون کی جگہ یالمون پڑھا جائے تو یعلمون کے معنی ہیں وہ جانتے ہیں یالمون کے معنی ہیں وہ زخمی ہوتے ہیں حق کی جگہ حک پڑھا جائے تو حق درست بات کو کہتے ہیں اور حک کھجانے بننے کو کہتے ہیں۔
کسی مسجد میں تین روز میں تو کسی میں پانچ روز میں تو دوسری میں 10 روز میں مکمل قرآن کا اعلان فخر کے ساتھ کیا جاتا ہے پانچ روزہ ختم میں راقم نے شرکت کی تو قرآن کا بیشتر حصہ راقم سمجھ نہ سکا کہ حافظ کیا پڑھ رہے ہیں قران کی تلاوت اور ختم کا یہ انداز قرانی تقاضے کے سراسر خلاف ہے اور اس رواج میں قاریوں کے ساتھ سامعین کا بھی بڑا دخل ہے سامعین اپنی مشغولیتوں کا عذر کرتے ہیں، کوئی چاہتا ہے کہ 50 منٹ میں تراویح مکمل ہو جائے تو کسی کی اور کچھ خواہش ہوتی ہے۔
ایسے ہی اس کے پیچھے ان مدارس کی تعلیم کا بڑا دخل ہے جہاں سے وہ پڑھ کر آئے ہیں آخر یہ مدارس ایسے حفاظ کیوں تیار کر رہے ہیں جو قرآن کے تقاضے کے مطابق قرآن نہ پڑھیں، اس لیے ضرورت ہے کہ ملک گیر سطح پر تحریک چلائی جائے اور طریقہ تدریس میں تبدیلی لائی جائے تاکہ قرآن کا احترام ہو سکے ۔
اللہ معاف کرے مولانا مناظر گیلانی نے النبی الخاتم میں لکھا ہے کہ ہندو خاص موقع پر رامائن ایسے ہی پڑھتے ہیں جس طرح مسلمان تراویح میں قرآن ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور رمضان میں اجر گنا دو گنا ہو جاتا ہے، لیکن یہ اجر و ثواب اسی وقت ملے گا جب قرآن نازل کرنے والے کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق پڑھا جائے۔
رمضان میں عام مسلمان بھی قرآن کی تلاوت کا اہتمام کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ختم کے لیے کوشاں رہتا ہے، صحابہ و تابعین اور اسلاف بھی رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام فرماتے البتہ عام مسلمان اور اسلاف کے معمول میں دو باتوں کا نمایاں فرق پایا جاتا ہے اسلاف قرآن کی تلاوت پورے سال کرتے ہیں رمضان میں زیادہ کرتے ہیں، جبکہ عام مسلمان صرف رمضان میں قرآن کھولتا ہے۔
اسلاف قرآن سمجھ کر پڑھتے ہیں قرآن میں غور کرتے ہیں عام مسلمان قرآن کے معنی و مطلب سے بے بہرہ ہیں ۔
قرآن کا تقاضا ہے کہ تمام مساجد میں انتظام کیا جائے کہ روز انہ قرآن کا جو حصہ تراویح میں پڑھا جاتا ہے اس کا خلاصہ ہو تفسیرہو نماز کے بعد کسی مفسر قران کے ذریعہ کرائی جائے۔
عام لوگ تلاوت بھی کریں اور وقت فارغ کر کے قرآن کا ترجمہ مطلب بھی پڑھیں قرآن کا تقاضا ہے کہ تلاوت اور سمجھنے کے ساتھ قرآن پر عمل کیا جائے اور انسانی زندگی کو قرآنی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے اپنی ذات کو قرآن کے مطابق بنائیں، اپنے معاشرے، اپنے گھرانے، اپنے ملک کو قرآن کی تعلیمات کے مطابق حکمت اور دور اندیشی سے ڈھالیں قرآن کا تقاضا ہے، قرآن کے پیغام کو پوری انسانیت تک پہنچائیں۔
رمضان خیر و برکت کا مہینہ ہے رمضان قرآن کا مہینہ ہے رمضان امن و سلامتی عفو و درگزر کا مہینہ ہے رمضان میں اترے قرآن میں عالم انسانیت کے لیے رہنمائی ہے، سراپا ہدایت ہے، فساد کو مٹانے والا، امن کو عام کرنے والا ہے ،رمضان عالمی امن کا پیام لایا ہے ۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS
#رمضان #میں #قران #کریم #کے #تقاضے #مفتی #محمد #ارشد #فاروقی