اسلام آباد(یو این آئی): پاکستان میں مردوں کی بالادستی والے انتخابی میدان میں 3000 سے زائد خواتین امیدوار حریف مرد امیدواروں کو چیلنج کرتی نظر آرہی ہیں اور تین دن بعد ہونے والے پارلیمانی اور صوبائی اسمبلی انتخابات ان قابل ذکر خواتین کے لئے تاریخ میں درج ہوجائے گا، جنہوں نے پاکستانی معاشرے، سیاست اور پارلیمنٹ کے پدرانہ تسلط کے سامنے خواب دیکھنے کی ہمت کی اوروہاں تک پہنچنے کا حوصلہ دکھایا۔
پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے پارلیمانی اور صوبائی اسمبلی انتخابات کے لیے 3 ہزار سے زائد خواتین امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عوامی میدان میں خواتین کی فعال شرکت کے لئے ثقافتی اور سماجی رکاوٹوں کے باوجود مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہوں یا آزاد امیدواروں کے طور پرخواتین سیاست دان اپنے مرد ہم منصبوں کو چیلنج کریں گی۔ انتخابی سیاست میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت فیصلہ سازی کے عمل کو جامع بنانے اور خواتین پر مبنی قوانین کے نفاذ کے لیے ناگزیر ہے۔
ملک میں انتخابی اصلاحات کے ذریعے مخصوص نشستوں کے علاوہ جنرل نشستوں پر خواتین امیدواروں کی پانچ فیصد نمائندگی کو یقینی بنانا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے والی خواتین سیاستدانوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوا ہے، لیکن پارلیمنٹ میں مرد ارکان پارلیمنٹ کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (ایف اے ایف این) کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2024 کے عام انتخابات کے لیے، بڑی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے پارلیمانی انتخابات میں 10 اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے 13 نشستوں پر خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 21 خواتین امیدواروں کو این اے ٹکٹ دیے ہیں، جب کہ صوبائی اسمبلیوں کے اعداد و شمار سامنے نہیں آئے ہیں، کیونکہ پارٹی کو اپنے مشہور انتخابی نشان کرکٹ بیٹ سے محروم کردیا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل- این) نے اپنی خواتین امیدواروں کو 16 پارٹی ٹکٹ جاری کیے ہیں جن میں 12 پارلیمانی اور چار اسمبلی سیٹیں شامل ہیں۔ جمعیت علمائے پاکستان فضل (جے یو آئی-ف) نے دونوں انتخابات کے لیے بالترتیب دو اور 9 اورجماعت اسلامی نے 10 اور 19 خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار بے نظیر شاہ کا کہنا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں جنرل نشستوں کے لئے خواتین کو ٹکٹ دینے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سیاسی جماعتوں نے بہت سی خواتین امیدواروں کو ان علاقوں میں ٹکٹ دیے ہیں جہاں وہ زیادہ مضبوط نہیں ہیں یا یہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ پانچ فیصد نشستوں کی شرط اس کی وجہ رہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خاص طور پر انتخابی مہموں کے دوران خواتین کے تئیں بدگمانی اور جنس پرست ثقافت کا تصور ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے جو خواتین کو الیکشن لڑنے یا سیاست میں شامل ہونے سے روکتا ہے۔ انہوں نے کہا، “یہ بدگمانی اس وقت بھی جاری رہتی ہے جب وہ (خواتین) پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوتی ہیں، جہاں بہت ہی سینئر سیاستدان بھی جنس پرستانہ تبصرے کرتے ہیں اور خاص طور پر خواتین کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود کئی خواتین سیاستدانوں نے سیاست میں اپنے لیے جگہ بنائی ہے۔
مزید پڑھیں: مالدیپ 2024 میں 20 لاکھ سیاحوں کو راغب کرنے کے لئے پرعزم
سال 2024 کے انتخابات میں مریم نواز اور آصفہ بھٹو زرداری ایسی خواتین امیدوار بھی ہیں جو اپنے مرد ہم منصبوں کے ساتھ مہم کی قیادت کر رہی ہیں۔ یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ بحران کا شکار پی ٹی آئی نے اس سال کے عام انتخابات کے لیے کئی خواتین امیدواروں کو جنرل نشستوں پر کھڑا کیا ہے کیونکہ ان کے مرد رشتہ دار یا تو جیل میں ہیں یا مختلف مقدمات میں مفرور ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS
#پاکستان #میں #خواتین #امیدوار #سرفہرست #امیدواروں #پر #ہوں #گی #نظریں